لاھور کے سکول میں پہلا دن ۔۔
صبح بڑی محنت سے تیاری کی ۔مسلہ یہ تھا کہ الیکٹرک استری نہیں تھی ۔ کوئلوں کے ساتھ استری ایک گھنٹے میں گرم ھوتی اور احتیاط سے کپڑے استری کرنے پڑتے کہ جل نہ جائیں ۔
ڈیرہ میں ملیشیا کے جوڑے کی یہ سھولت تھی کہ رات کو تکیہ کے نیچے رکھ لیتا صبح ایک دم تیار ۔چپلی پر بھی واجبی کپڑا پھیر لیتا مگر یہاں بوٹ کو چمکا کر جانا تھا۔
ڈیرہ میں ملیشیا کے جوڑے کی یہ سھولت تھی کہ رات کو تکیہ کے نیچے رکھ لیتا صبح ایک دم تیار ۔چپلی پر بھی واجبی کپڑا پھیر لیتا مگر یہاں بوٹ کو چمکا کر جانا تھا۔
بہرحال وقت پر سکول پہنچا اور چپڑاسی نے چھٹی کلاس میں بٹھا دیا۔ بس نروس تھا جو لڑکا آتا مجھے دیکھتا اور آپس میں کُھسر پُھسر کرتے۔ خیر اسمبلی کے بعد کلاس میں انچارج ٹیچر آیا۔سب کی حاضری ہو گئ تو مجھ سے پوچھا تم کون؟ جی نیا داخل ہوا ہوں ۔کیا نام ھے کہاں سے آۓ ہو؟ نام بتایا اور ڈیرہ اسمعیل خان سے۔۔یہ ڈیرہ اسمعیل خان کہاں ھے؟ صوبہ سرحد میں (KPK نہیں تھا).
سب لڑکے غور سے میری طرف دیکھ رھے تھے ۔
ٹیچر نے پوچھا ڈیرہ کس چیز کے لئے مشھور ھے؟
فورن کلاس کے کسی لڑکے نے جواب دیا۔۔
نسوار کے لئے سر۔۔۔۔
بس ساری کلاس زور سے ہنسنے لگی اور ٹیچر بھی۔۔شور مچ گیا۔ جب کلاس کنٹرول ہوئ تو استاد نے پھر پوچھا تم بتاٶ؟
میں اب تیار تھا ۔۔۔ سر ڈیرہ خلوص کے لئے مشھور ھے محبت کے لئے مشھور ھے۔۔مجھے جب پتہ چلا کہ لاھور کے لوگ بھت محبت اور مہماندار ہیں تو فیصلہ کیا یہاں آ کر یہ رنگ دیکھوں اس لئے اب آپکے ساتھ ہوں۔
تھوڑی دیر سناٹا چھا گیا ۔پھر تالیاں بجیں اور پھر کلاس کے پچیس طلبا نے آکر مجھ سے ہاتھ ملایا ۔ بہت سے کہنے لگے میں انکے ساتھ بنچ پر بیٹھوں لیکن ٹیچر نے پہلی رو میں مجھے عارف کے ساتھ بٹھا دیا۔۔
لاھور سے محبت کا یہ آغاز تھا پھر اگلے پانچ سال میں لاھوریوں کی محبت کے سمندر میں غوطے کھاتا رہا اور آج تک وہ محبت میرے دل میں ایک مینار کی طرح روشن ھے واقعی لاھور لاھور ھے۔
گلزار احمد



No comments:
Post a Comment