ڈیرہ کا سِند بَاد جَہاذی لاہور میں۔
جیسا کہ کچھ دن پہلے پوسٹ میں
S S Jhelum
سٹیمر میں لاہور کے سفر کا حال لکھا تھا
اب لاہور کے ریلوے سٹیشن سے اترتے ہی بارہ سال کے سٹوڈنٹ کے لئے حیرتوں کے پہاڑ منتظر تھے۔
جیسا کہ کچھ دن پہلے پوسٹ میں
S S Jhelum
سٹیمر میں لاہور کے سفر کا حال لکھا تھا
اب لاہور کے ریلوے سٹیشن سے اترتے ہی بارہ سال کے سٹوڈنٹ کے لئے حیرتوں کے پہاڑ منتظر تھے۔
ریلوے سٹیشن کے بالکل سامنے لوکل بسوں کا اڈہ تھا جس میں ڈبل ڈیکر بسیں رواں دواں ۔۔۔میری تو آنکھیں کُھلی کی کھلی رہ گیئں اتنی اونچی جمبو بسیں۔
لیکن لاھور تو لاھور ھے
ابھی مجھے کئ جھٹکے اور لگنے تھے۔ دوسرے دن ریس کورس میں گھوڑوں کی دوڑ پہلی دفعہ دیکھی۔ چڑیا گھر کی طرف لوٹا تو باھر بڑے بڑے چمگادڑ الٹے لٹکے سو رھے تھے۔ چڑیا گھر کے جانور تو کمال کے تھے۔ قریب ایک شملہ پہاڑی جیسی پہاڑی تھی ۔سبزے اور پھولوں سے لدی ہوئ۔ میں تو پیزو کے کالے بُھجنگ پہاڑ دیکھ گیا تھا۔ یہ ایک میرے لئے نی دنیا تھی۔ خوبصورت۔ رومینٹک اور زندگی کی رعنائیوں سے بھرپور۔
کئ روز یہ معمول رہا کہ دن کو سیر کرتا اور رات کو وہی خواب دیکھتا۔ ؎
شوق بَرہنہ پا چلتا تھا اور رستے بھی پتھریلے تھے ۔
گِھستے گِھستے گِھس گئے آخر پتھر جو نوکیلے تھے۔
گلزار احمد
No comments:
Post a Comment